بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے
غیروں کا ساتھ موجب صد وہم ہے بتاں
اس امر میں خدا بھی کہے تو نہ مانیے
شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ
جب سویئے تو چادر مہتاب تانیے
اپنا یہ اعتقاد ہے تجھ جستجو میں یار
لے اس سرے سے اس سرے تک خاک چھانیے
پھر یا نصیب یہ بھی ہے طالع کی یاوری
مر جائیں ہم تو اس پہ بھی ہم کو نہ جانیے
لوٹے ہے خاک و خون میں غیروں کے ساتھ میرؔ
ایسے تو نیم کشتہ کو ان میں نہ سانیے