ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میرؔ
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے