غرض اس شوخ نے بھی کام کیا
سرو و شمشاد خاک میں مل گئے
تو نے گلشن میں کیوں خرام کیا
سعی طوف حرم نہ کی ہرگز
آستاں پر ترے مقام کیا
تیرے کوچے کے رہنے والوں نے
یہیں سے کعبے کو سلام کیا
اس کے عیار پن نے میرے تئیں
خادم و بندہ و غلام کیا
حال بد میں مرے بتنگ آ کر
آپ کو سب میں نیک نام کیا
دختر رز سے کیا تھا میرے تئیں
شیخ کی ضد پہ میں حرام کیا
ہو گیا دل مرا تبرک جب
ورد یہ قطعۂ پیامؔ کیا
“”دلی کے کج کلاہ لڑکوں نے
کام عشاق کا تمام کیا
کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتل عام کیا””
عشق خوباں کو میرؔ میں اپنا
قبلہ و کعبہ و امام کیا