جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا
خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے
قتل کرتے کرتے تیرے تیں جنوں ہو جائے گا
اس شکار انداز خونیں کا نہیں آیا مزاج
ورنہ آہوئے حرم صید زبوں ہو جائے گا
بزم عشرت میں ملا مت ہم نگوں بختوں کے تیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
تا کجا غنچہ صفت رکنا چمن میں دہر کے
کب گرفتہ دل مرے سینے میں خوں ہو جائے گا
کیا کہوں میں میرؔ اس عاشق ستم محبوب کو
طور پر اس کے کسو دن کوئی خوں ہو جائے گا