یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم
تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح
فریادی ہوں گے مل کے لہو کو جبیں سے ہم
فتراک تک یہ سر جو نہ پہنچا تو یا نصیب
مدت لگے رہے ترے دامان زیں سے ہم
ہوتا ہے شوق وصل کا انکار سے زیاد
کب تجھ سے دل اٹھاتے ہیں تیری نہیں سے ہم
چھاجے جو پیش دستی کرے نور ماہ پر
دیکھی عجب سفیدی تری آستیں سے ہم
یہ شوق صید ہونے کا دیکھو کہ آپ کو
دکھلایا صید گہ میں یسار و یمیں سے ہم
تکلیف درد دل کی نہ کر تنگ ہوں گے لوگ
یہ بات روز کہتے رہے ہم نشیں سے ہم
اڑتی ہے خاک شہر کی گلیوں میں اب جہاں
سونا لیا ہے گودوں میں بھر کر وہیں سے ہم
آوارہ گردی اپنی کھنچی میرؔ طول کو
اب چاہیں گے دعا کسو عزلت نشیں سے ہم