کب سے آنے کہتے ہیں تشریف نہیں لاتے ہیں ہنوز

کب سے آنے کہتے ہیں تشریف نہیں لاتے ہیں ہنوز
آنکھیں مندیں اب جاچکے ہم وے دیکھو تو آتے ہیں ہنوز
کہتا ہے برسوں سے ہمیں تم دور ہو یاں سے دفع بھی ہو
شوق و سماجت سیر کرو ہم پاس اس کے جاتے ہیں ہنوز
راتوں پاس گلے لگ سوئے ننگے ہو کر ہے یہ عجب
دن کو بے پردہ نہیں ملتے ہم سے شرماتے ہیں ہنوز
ساتھ کے پڑھنے والے فارغ تحصیل علمی سے ہوئے
جہل سے مکتب کے لڑکوں میں ہم دل بہلاتے ہیں ہنوز
گل صد رنگ چمن میں آئے باد خزاں سے بکھر بھی گئے
عشق و جنوں کی بہار کے عاشق میرؔ جی گل کھاتے ہیں ہنوز
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *