کب تک رہیں گے یارب ہر دم ہم آبدیدہ

کب تک رہیں گے یارب ہر دم ہم آبدیدہ
ضائع ہے جیب و دامن جوں جنس آب دیدہ
اس حور سے شبوں کا ملنا گیا سو چپ ہوں
جاتا نہیں کہا کچھ جوں گنگ خواب دیدہ
راز محبت اپنا رسوا نہ اس قدر ہو
گر ہو نہ اشک افشاں خانہ خراب دیدہ
جب دیکھو لگ رہا ہے در کی طرف اسی کے
ہے جیسے کہیے ویسے ذلت کا باب دیدہ
دوزخ میں میرؔ ہوں میں یار بہشت رو بن
جاں ہے ستم رسیدہ دل ہے عذاب دیدہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *