ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب
سوچتّے آتے ہیں جی میں پگڑی پر گل رکھے سے
کس کو دماغ رہا ہے اس کے جو حرف خشن اٹھاوے اب
تیغ بلند ہوئی ہے اس کی قسمت ہوں گے زخم رسا
مرد اگر ہے صید حرم تو کوئی جراحت کھاوے اب
داغ سر و سینے کے میرے حسرت آگیں چشم ہوئے
دیکھیں کیا کیا عشق ستم کش ہم لوگوں کو دکھاوے اب
دم دو دم گھبراہٹ ہو تو ہوسکتا ہے تدارک بھی
جی کی چال سے پیدا ہے سو کوئی گھڑی میں جاوے اب
دل کے داغ بھی گل ہیں لیکن دل کی تسلی ہوتی نہیں
کاشکے دو گلبرگ ادھر سے باؤ اڑا کر لاوے اب
اس کے کفک کی پامالی میں دل جو گیا تھا شاید میرؔ
یار ادھر ہو مائل ٹک تو وہ رفتہ ہاتھ آوے اب