مٹھ بھیڑ اگر ہو گئی اس تیغ بکف سے
جاتا ہے کوئی دشت عرب کو جو بگولا
کہہ دوں ہوں دعا مجنوں کو میں اپنی طرف سے
دریا تھا مگر آگ کا دریائے غم عشق
سب آبلے ہیں میرے درونے میں صدف سے
دل اور جگر یہ تو جلے آتش غم میں
جی کیونکے بچاؤں کہو اس آگ کی تف سے
شب اس کے سگ کو نے ہمیں پاس بٹھایا
ہم اپنے تئیں دور نہ کیوں کھینچیں شرف سے
چھاتی میں بھری آگ ہے کیا جس سے شب و روز
چنگاریاں گرتی ہیں مری پلکوں کی صف سے
اے میرؔ گدائی کروں دروازے کی اس کے
مانگوں ہوں یہی آٹھ پہر شاہ نجف سے