یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے
آیا ہے زیر زلف جو رخسار کا وہ سطح
یاں سانجھ کے تئیں بھی سحر کا سماں سا ہے
ہے جی کی لاگ اور کچھ اے فاختہ ولے
دیکھے نہ کوئی سرو چمن اس جواں سا ہے
کیا جانیے کہ چھاتی جلے ہے کہ داغ دل
اک آگ سی لگی ہے کہیں کچھ دھواں سا ہے
اس کی گلی کی اور تو ہم تیر سے گئے
گو قامت خمیدہ ہمارا کماں سا ہے
جو ہے سو اپنی فکر خروبار میں ہے یاں
سارا جہان راہ میں اک کارواں سا ہے
کعبے کی یہ بزرگی شرف سب بجا ہے لیک
دلکش جو پوچھیے تو کب اس آستاں سا ہے
عاشق کی گور پر بھی کبھو تو چلا کرو
کیا خاک واں رہا ہے یہی کچھ نشاں سا ہے
زور طبیعت اس کا سنیں اشتیاق تھا
آیا نظر جو میرؔ تو کچھ ناتواں سا ہے