سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی
زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا
یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد
جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا
کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن
ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا
ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی
ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا
ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں
مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا
آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو
جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا
یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا
کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے
مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا
زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی
میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے
آگے بھی میرؔ سید کرتے گئے ہیں ساکا