پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
پہنچی ہے اس سرے تئیں طبع رواں کی بات
اب تو وفا و مہر کا مذکور ہی نہیں
تم کس سمیں کی کہتے ہو ہے یہ کہاں کی بات
مرغ اسیر کہتے تھے کس حسرتوں سے ہائے
ہم بھی کبھی سنیں گے گلوں کے دہاں کی بات
شب باش ان نے کہتے ہیں آنے کہا ہے میرؔ
دن اچھے ہوں تو یہ بھی ہو اس مہرباں کی بات