کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط

کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط
ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط
ٹک گرم میں ملوں تو مجھی سے ملے خنک
اوروں سے تو وہی ہے اسے ہر دم اختلاط
ایسا نہ ہو کہ شیخ دغا دیوے ہم نشیں
ابلیس سے کرے ہے کوئی آدم اختلاط
بیگانگی مجھی سے چلی جاتی ہے خصوص
رکھتا ہے یوں تو یار سے اک عالم اختلاط
کس طور اتفاق پڑی صحبت اس سے دیر
ہے میرؔ بے دماغ و قیامت کم اختلاط
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *