کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اس کی باک ہم

کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اس کی باک ہم
نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم
بیٹھے ہم اپنے طور پہ مستوں میں جب اٹھے
جوں ابر تر لیے اٹھے دامن کو پاک ہم
آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاق پر فشانی ہیں اک مشت خاک ہم
شمع و چراغ و شعلہ و آتش شرار و برق
رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم
مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشأتین کا
گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیر تاک ہم
جوں برق تیرے کوچے سے ہنستے نہیں گئے
مانند ابر جب اٹھے تب گریہ ناک ہم
مدت ہوئی کہ چاک قفس ہی سے اب تو میرؔ
دکھلا رہے ہیں گل کو دل چاک چاک ہم
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *