بیکراں دریائے غم کے ہیں بلا جوش و خروش
صومعے کو اس ہوائے ابر میں دیتے ہیں آگ
میکدے سے باہر آتے ہی نہیں ذی عقل و ہوش
تنگ چولی سوجگہ سے کسمساتے ہی چلی
تنگ درزی سے کبھی ملتا نہیں وہ تنگ پوش
وائے رے پروانہ کیسا چپکے جل کر رہ گیا
گرمی پہنچے کیا اچھلتا ہے سپند ہرزہ کوش
کیسا خود گم سر بکھیرے میرؔ ہے بازار میں
ایسا اب پیدا نہیں ہنگامہ آرا دل فروش