سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے
دی آگ دل کو محبت نے جب سے پھرتا ہوں
میں جس طرح کسو کا خانمان جل جاوے
دوا پذیر نہیں اے طبیب تپ غم کی
بدن میں ٹک رہے تو استخوان جل جاوے
نہ آوے سوز جگر منھ پہ شمع ساں اے کاش
بیان کرنے سے آگے زبان جل جاوے
ہمارے نالے بھی آتش ہی کے ہیں پرکالے
سنے تو بلبل نالاں کی جان جل جاوے
ہزار حیف کہ دل خار و خس سے باندھے کوئی
خزاں میں برق گرے آشیان جل جاوے
متاع سینہ سب آتش ہے فائدہ کس کا
خیال یہ ہے مبادا دکان جل جاوے
نہ پوچھ کچھ لب ترسا بچے کی کیفیت
کہوں تو دختر رز کی فلان جل جاوے
نہ بول میرؔ سے مظلوم عشق ہے وہ غریب
مبادا آہ کرے سب جہان جل جاوے