کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے

کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے
ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے
واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار میں بھی
کیا جانیے کہ جی میں یہ کیسی گل جھڑی ہے
نادیدنی دکھاوے کیونکر نہ عشق ہم کو
کس فتنۂ زماں سے آنکھ اپنی جا لڑی ہے
وے دن گئے کہ پہروں کرتے نہ ذکر اس کا
اب نام یار اپنے لب پر گھڑی گھڑی ہے
آتش سی پھک رہی ہے سارے بدن میں میرے
دل میں عجب طرح کی چنگاری آ پڑی ہے
کیا کچھ ہمیں کو اس کی تلوار کھا گئی ہے
ایسی ہی اک جڑی ہے اس نے جہاں جڑی ہے
کیا میرؔ سر جھکاویں ہر کم بغل کے آگے
نام خدا انھوں کی عزت بہت بڑی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *