کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے

کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے
آخر ہیں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے
سو ظلم اٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا
ہرگز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے
اس شوخ کی سرتیز پلک ہیں کہ وہ کانٹا
گڑ جائے اگر آنکھ میں سر دل سے نکالے
عشق ان کو ہے جو یار کو اپنے دم رفتن
کرتے نہیں غیرت سے خدا کے بھی حوالے
وے دن گئے جو ضبط کی طاقت تھی ہمیں بھی
اب دیدۂ خوں بار نہیں جاتے سنبھالے
احوال بہت تنگ ہے اے کاش محبت
اب دست تلطف کو مرے سر سے اٹھا لے
دعوائے قیامت کا مرے خوف اسے کیا
اک لطف میں وہ مجھ سے تنک رو کو منا لے
کہتے ہیں حجاب رخ دلدار ہے ہستی
دیکھیں گے اگر یوں ہے بھلا جان بھی جا لے
میرؔ اس سے نہ مل آہ کہ ڈرتے ہیں مبادا
بیباک ہے وہ شوخ کہیں مار نہ ڈالے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *