کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا

کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا
آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا
کیا جنوں کو روؤں تردستی سے اس کی گل نمط
لے گریباں سے زہ دامن تک اک ہی چاک تھا
رو جو آئی رونے کی مژگاں نہ ٹھہری ایک پل
راہ میں اس رود کی گویا خس و خاشاک تھا
اک ہی شمع شعلہ خو کے لائحے میں جل بجھا
جب تلک پہنچے کوئی پروانہ عاشق خاک تھا
بادشاہ وقت تھا میں تخت تھا میرا دماغ
جی کے چاروں اور اک جوش گل تریاک تھا
ڈھال تلوار اس جواں کے ساتھ اب رہتی نہیں
وہ جفا آئیں شلائیں لڑکا ہی بیباک تھا
تنگ پوشی تنگ درزی اس کی جی میں کھب گئی
کیا ہی وہ محبوب خوش ترکیب خوش پوشاک تھا
بات ہے جی مارنا بازیچہ قتل عام ہے
اب تو ہے صد چند اگر دہ چند وہ سفاک تھا
غنچۂ دل وا ہوا نہ باغوں باغوں میں پھرا
اب بھی ہے ویسا ہی جیسا پیشتر غمناک تھا
درک کیا اس درس گہ میں میرؔ عقل و فہم کو
کس کے تیں ان صورتوں میں معنی کا ادراک تھا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *