خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا
اب شہر خوش عمارت دل کا ہے کیا خیال
ناگاہ آ کے عشق نے مارا جلا گرا
کیا طے ہو راہ عشق کی عاشق غریب ہے
مشکل گذر طریق ہے یاں رہگرا گرا
لازم پڑی ہے کسل دلی کو فتادگی
بیمار عشق رہتا ہے اکثر پڑا گرا
ٹھہرے نہ اس کے عشق کا سرگشتہ و ضعیف
ٹھوکر کہیں لگی کہ رہا سرپھرا گرا
دے مارنے کو تکیہ سے سر ٹک اٹھا تو کیا
بستر سے کب اٹھے ہے غم عشق کا گرا
پھرتا تھا میرؔ غم زدہ یک عمر سے خراب
اب شکر ہے کہ بارے کسی در پہ جا گرا