ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے
جس سے اسے لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے
سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہو گیا ہے
کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کی
یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے
صحبت سے اس جہاں کی کوئی خلاص ہو گا
اس فاحشہ پہ سب کو امساک ہو گیا ہے
دیوار کہنہ ہے یہ مت بیٹھ اس کے سائے
اٹھ چل کہ آسماں تو کا واک ہو گیا ہے
شرم و حیا کہاں کی ہر بات پر ہے شمشیر
اب تو بہت وہ ہم سے بے باک ہو گیا ہے
ہر حرف بسکہ رویا ہے حال پر ہمارے
قاصد کے ہاتھ میں خط نمناک ہو گیا ہے
زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میرؔ
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے