گوہر تر جوں سرشک آنکھوں سے سب کی گر گیا
کیا گذر کوئے محبت میں ہنسی ہے کھیل ہے
پاؤں رکھا جس نے ٹک اودھر پھر اس کا سر گیا
کیا کوئی زیر فلک اونچا کرے فرق غرور
ایک پتھر حادثے کا آ لگا سر چر گیا
نیزہ بازان مژہ میں دل کی حالت کیا کہوں
ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا
بعد مدت اس طرف لایا تھا اس کو جذب عشق
بخت کی برگشتگی سے آتے آتے پھر گیا
تیز دست اتنا نہیں وہ ظلم میں اب فرق ہے
یعنی لوہا تھا کڑا تیغ ستم کا کر گیا
سخت ہم کو میرؔ کے مر جانے کا افسوس ہے
تم نے دل پتھر کیا وہ جان سے آخر گیا