ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر
کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی سج کو شوخ
آنکھوں میں جان آئی ہے ایدھر نگاہ کر
رحمت اگر یقینی ہے تو کیا ہے زہد شیخ
اے بیوقوف جائے عبادت گناہ کر
چھوڑ اب طریق جور کو اے بے وفا سمجھ
نبھتی نہیں یہ چال کسو دل میں راہ کر
چسپیدگی داغ سے مت منھ کو اپنے موڑ
اے زخم کہنہ دل سے ہمارے نباہ کر
جیتے جی میرے لینے نہ پاوے طپش بھی دم
اتنی تو سعی تو بھی جگر خوامخواہ کر
اس وقت ہے دعا و اجابت کا وصل میرؔ
یک نعرہ تو بھی پیش کش صبح گاہ کر