واں گئے کیا ہو کچھ نہیں معلوم
وصل کیونکر ہو اس خوش اختر کا
جذب ناقص ہے اور طالع شوم
نہ ہوئے تھے ابھی جواں افسوس
صبر مغفور و طاقت مرحوم
جب غبار اپنے دل کا نکلے ہے
دیر رہتی ہے آندھی کی سی دھوم
بھیگی اس کی مسوں کی خوبی سے
بے حواسی ہے ہم کو جوں مسموم
ہے عبث یہ تردد و تشویش
پہنچے ہے وقت پر جو ہے مقسوم
ہاتھ سے وے گئے جو سیمیں ساق
ہم رہے سر بہ زانوئے مغموم
صاحب اپنا ہے بندہ پرور میرؔ
ہم جہاں سے نہ جائیں گے محروم