متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید
کم ناز سے ہے کس کے بندے کی بے نیازی
قالب میں خاک کے یاں پنہاں خدا ہے شاید
یاں کچھ نہیں ہے باقی اس کے حساب لیکن
مجھ میں شمار دم سے اب کچھ رہا ہے شاید
قید فراق سے تو چھوٹیں جو مر رہیں ہم
اس درد بے دوا کی مرنا دوا ہے شاید
یہ عشق ہے یقینی حال ایسا کم سنا ہے
اے میرؔ دل کسو سے تیرا لگا ہے شاید