جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج
سر اپنا عشق میں ہم نے بھی یوں تو پھوڑا تھا
پر اس کو کیا کریں اوروں کا اعتبار ہے آج
گیا ہے جانب وادی سوار ہو کر یار
غبار گرد پھرے ہے بہت شکار ہے آج
جہاں کے لوگوں میں جس کی تھی کل تئیں عزت
اسی عزیز کو دیکھا ذلیل و خوار ہے آج
سحر سواد میں چل زور پھولی ہے سرسوں
ہوا ہے عشق سے کل زرد کیا بہار ہے آج
سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر
کہ خیرہ تیرہ نمودار یک غبار ہے آج
سپہر چھڑیوں میں کل تک پھرے تھا ساتھ اپنے
عجب ہے سب کا اسی سفلے پر مدار ہے آج
بخار دل کا نکالا تھا درد دل کہہ کر
سو درد سر ہے بدن گرم ہے بخار ہے آج
کسو کے آنے سے کیا اب کہ غش ہے کل دن سے
ہمیں تو اپنا ہی اے میرؔ انتظار ہے آج