کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے

کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
بہت روئے ہمارے دیدۂ تر اب نہیں کھلتے
متاع آب دیدہ ہے کوئی اس کو ہوا دیوے
تمھارے پاؤں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے
تم آؤ تو تمھیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جا دیوے
دلیل گم رہی ہے خضر جو ملتا ہے جنگل میں
پھرے ہے آپھی بھولا کیا ہمیں رستہ بتا دیوے
گئے ہی جی کے فیصل ہو نیاز و ناز کا جھگڑا
کہیں وہ تیغ کھینچے بھی کہ بندہ سر جھکا دیوے
لڑائی ہی رہی روزوں میں باہم بے دماغی سے
گلے سے اس کے ہم کو عید اب شاید ملا دیوے
ہوا میں میرؔ جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا
لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *