کہے تو ہم نشیں رنگ تصرف کچھ دکھاؤں میں

کہے تو ہم نشیں رنگ تصرف کچھ دکھاؤں میں
الگ بیٹھا حنا بندوں کو آنکھوں میں رچاؤں میں
نہیں ہوں بے ادب اتنا کہ گل سے منھ لگاؤں میں
جگر ہو ٹکڑے ٹکڑے گر چمن کی اور جاؤں میں
کیا ہے اضطراب دل نے کیا مجھ کو سبک آخر
کہاں تک یار کے کوچے سے جا جا کر پھر آؤں میں
وفا صد کارواں رکھتا ہوں لیکن شہر خوبی میں
خریداری نہیں مطلق کہاں جا کر بکاؤں میں
مجھے سر در گریباں رہنے دو میں بے توقع ہوں
کسو پتھر سے پٹکوں ہوں ابھی سر جو اٹھاؤں میں
بلا حسرت ہے یارب کام دل کیونکر کروں حاصل
مگر لب ہائے شیریں پر کسو کے زہر کھاؤں میں
نہ روؤں حال پر کیونکر بلا ناآشنا ہے وہ
کہیں آنکھ اس کی ملتی ہے جو آنکھیں ٹک ملاؤں میں
نہ ئاے رشک بہار آنکھیں اٹھاوے پشت پا سے تو
ہتھیلی پر اگر سرسوں ترے آگے جماؤں میں
کہوں کیا صحبت اس سے ہر گھڑی بگڑی ہی جاتی ہے
جو ٹک راہ سخن نکلے تو سو باتیں بناؤں میں
نگاہ حسرت بت دیر سے جانے کی مانع ہے
مزاج اپنا بہت چاہا کہ سوئے کعبہ لاؤں میں
اسیر زلف کو اس بت کے کیا قیدمسلمانی
تمنا ہے گلا زنار سے اپنا بندھاؤں میں
کہوں ہوں میرؔ سے دل دے کہیں تا جی لگے تیرا
جو ہو نقصان جاں اس کا تو کیونکر پھر مناؤں میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *