کاشکے پردے ہی میں بولو تم
حکم آب رواں رکھے ہے حسن
بہتے دریا میں ہاتھ دھولو تم
کیا سراہیں ہم اپنی جنس کو لیک
دل عجب ہے متاع جو لو تم
جانا آیا ہے اب جہاں سے ہمیں
تھوڑی تو دور ساتھ ہو لو تم
جب میسر ہو بوسہ اس لب کا
چپکے ہی ہو رہو نہ بولو تم
پنجہ مرجاں کا پھر دھرا ہی رہے
ہاتھ خوں میں مرے ڈبولو تم
دست دے ہے کسے پلک سی میل
دل جہاں پاؤ اب پرو لو تم
آتے ہیں متصل چلے آنسو
آہ کب تک یہ موتی رولو تم
رات گذری ہے سب تڑپتے میرؔ
آنکھ لگ جائے ٹک تو سولو تم