کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
مر جانا آنکھیں موند کے یہ کچھ ہنر نہیں
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوا نہ روز
کیا اے شب فراق تجھی کو سحر نہیں
ہر چند ہم کو مستوں سے صحبت رہی ہے لیک
دامن ہمارا ابر کے مانند تر نہیں
گلگشت اپنے طور پہ ہے سو تو خوب یاں
شائستۂ پریدن گلزار پر نہیں
کیا ہو جے حرف زن گذر دوستی سے آہ
خط لے گیا کہ راہ میں پھر نامہ بر نہیں
آنکھیں تمام خلق کی رہتی ہیں اس کی اور
مطلق کسو کو حال پہ میرے نظر نہیں
کہتے ہیں سب کہ خون ہی ہوتا ہے اشک چشم
راتوں کو گر بکا ہے یہی تو جگر نہیں
جا کر شراب خانے میں رہتا نہیں تو پھر
یہ کیا کہ میرؔ جمعے ہی کی رات گھر نہیں