ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس
بوئے خوں بھک بھک دماغوں میں چلی آتی ہے کچھ
نکلی ہے ہو کر صبا شاید کسو گھائل کے پاس
شور و ہنگامہ بہت دعویٰ ضروری ہے بہت
کاشکے مجھ کو بلاویں حشر میں قاتل کے پاس
گرد سے ہے ناقۂ سلمیٰ کو مشکل رہروی
خاک کس کی ہے کہ مشتاق آتی ہے محمل کے پاس
تل سے تیرے منھ کے دل تھا داغ اے برنائے چرب
خال یہ اک اور نکلا ظالم اگلے تل کے پاس
دل گداز عشق سے سب آب ہو کر بہ گیا
مر گئے پر گور میری کریے تو بے دل کے پاس
ملیے کیونکر نہ کف افسوس جی جاتا ہے میرؔ
ڈوبتی ہے کشتی ورطے سے نکل ساحل کے پاس