کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے
وحشت سے میری یارو خاطر نہ جمع رکھیو
پھر آوے یا نہ آوے نو پر اٹھا جو گھر سے
اب جوں سر شک ان سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں گر کر تری نظر سے
دیدار خواہ اس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اٹھتی ہے اس کے در سے
داغ ایک ہو جلا بھی خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے کیا گفتگو جگر سے
دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے
انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے
بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے
دلکش یہ منزل آخر دیکھا تو آہ نکلی
سب یار جاچکے تھے آئے جو ہم سفر سے
آوارہ میرؔ شاید واں خاک ہو گیا ہے
یک گرد اٹھ چلے ہے گاہ اس کی رہگذر سے