رسم ظاہر تمام ہے موقوف
حیرت حسن یار سے چپ ہیں
سب سے حرف و کلام ہے موقوف
روز وعدہ ہے ملنے کا لیکن
صبح موقوف شام ہے موقوف
وہ نہیں ہے کہ داد لے چھوڑیں
اب ترحم پہ کام ہے موقوف
پیش مژگاں دھرے رہے خنجر
آگے زلفوں کے دام ہے موقوف
کہہ کے صاحب کبھو بلاتے تھے
سو وقار غلام ہے موقوف
اقتدا میرؔ ہم سے کس کی ہوئی
اپنے ہاں اب امام ہے موقوف