کیا چلے جاتے ہیں جہان سے لوگ

کیا چلے جاتے ہیں جہان سے لوگ
مگر آئے تھے میہمان سے لوگ
قہر ہے بات بات پر گالی
جاں بہ لب ہیں تری زبان سے لوگ
شہر میں گھر خراب ہے اپنا
آتے ہیں یاں اب اس نشان سے لوگ
ایک گردش میں ہیں برابر خاک
کیا جھگڑتے ہیں آسمان سے لوگ
درد دل ان نے کب سنا میرا
لگے رہتے ہیں اس کے کان سے لوگ
باؤ سے بھی لچک لہک ہے انھیں
ہیں یہی سبزے دھان پان سے لوگ
شوق میں تیر سے چلے اودھر
ہم خمیدہ قداں کمان سے لوگ
آدمی اب نہیں جہاں میں میرؔ
اٹھ گئے اس بھی کاروان سے لوگ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *