ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر
لکھا جو گیا اس کو کیا نقل کریے
سخن خونچکاں تھے زبان قلم پر
جھکے ٹک جدھر جھک گئے لوگ اودھر
رہی درمیاں تیغ ابرو کے خم پر
سخن زن ہوں ہر چند وے مست آنکھیں
نہیں اعتماد ان کے قول و قسم پر
جگر ہے سزا میرؔ اس رنج کش کو
گیا دو قدم جو ہمارے قدم پر