شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم الم رنج و قلق ہجراں کا تو
زندگی سے بے توقع ہیں ان آزاروں میں ہم
شاید آوے حال پرسی کرنے اس امید پر
کب سے ہیں دار الشفا میں اس کے بیماروں میں ہم
دھوپ میں جلتے ہیں پہروں آگے اس کے میرؔ جی
رفتگی سے دل کی ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں ہم