یا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشنا
پائمال صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا
کون سے یہ بحر خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میری موج دریا آشنا
رونا ہی آتا ہے ہم کو دل ہوا جب سے جدا
جائے رونے ہی کی ہے جاوے جب ایسا آشنا
ناسمجھ ہے تو جو میری قدر نئیں کرتا کہ شوخ
کم بہت ملتا ہے پھر دلخواہ اتنا آشنا