کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا

کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا
ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا
اٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا
جلوۂ ماہ تہ ابر تنک بھول گیا
ان نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدۂ اشک افشاں کا
ساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دماغ
آئی فردوس بھی چل کر نہ ادھر کو جھانکا
اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آ بیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں کا
کار اسلام ہے مشکل ترے خال و خط سے
رہزن دیں ہے کوئی دزد کوئی ایماں کا
چارۂ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میرؔ
اس مرض میں ہے عبث فکر تمھیں درماں کا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *