کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو

کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو
کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو
پھروں ہوں ترے عشق میں کوچہ کوچہ
مگر کوچہ گردی سے الفت ہے مجھ کو
کہاں زندگی مدت العمر ظالم
ترے عشق میں دم غنیمت ہے مجھ کو
نہ کر شور ناصح بہت ناتواں ہوں
کہاں بات اٹھانے کی طاقت ہے مجھ کو
ہیں اسباب مرنے کے سب تیرے غم میں
جیا اب تلک کیونکے حیرت ہے مجھ کو
دل اتنا ہے آشفتہ خورشید رو کا
کہ اپنے بھی سائے سے وحشت ہے مجھ کو
کڑھوں ہوں گا من مانتا میرؔ صاحب
غم یار میں کیا فراغت ہے مجھ کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *