کیا کروں سودائی اس کی زلف کی تدبیر میں

کیا کروں سودائی اس کی زلف کی تدبیر میں
ظل ممدود چمن میں ہوں مگر زنجیر میں
گل تو مجھ حیران کی خاطر بہت کرتا ہے لیک
وا نہیں ہوتا برنگ غنچۂ تصویر میں
روبرو اس کے گئے خاموش ہو جاتا ہوں کچھ
کس سے اپنے چپکے رہنے کی کروں تقریر میں
تن بدن میں دل کی گرمی نے لگا رکھی ہے آگ
عشق کی تو ہے جوانی ہو گیا گو پیر میں
ہو اگر خونریز کا اپنے سبب تو کچھ کہو
وہ ستمگر ہے مقرر اور بے تقصیر میں
بے دماغی شور شب سے یار کو دونی ہوئی
دیکھی بس اس بے سرایت نالے کی تاثیر میں
کچھ نہیں پوچھا ہے مجھ سے جز حدیث روئے یار
ہاتھ بلبل کے لگا ہوں باغ میں جب میرؔ میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *