اور مجلس میں جو رہیے دیکھ تو شرمائے وہ
کس طرح تڑپے ہے کیا کیا جی گھٹا جاتا ہے ہائے
ساتھ اس کے دل لگا ہو جس کسو کا وائے وہ
کیا سلوک اس بے وفا کے نقل کریے ہم نشیں
منتیں کریے تو یاں تک گھر سے چل کر آئے وہ
لطف سے لبریز ہے اس کام جاں کا سب بدن
مختلط ہو جائے ہم سے جو کبھو تو ہائے وہ
بے خودی ہے جی چلا جاتا ہے ہوں صاحب فراش
بے خبر اے کاش بالیں پر مری آ جائے وہ
ہم نہیں ملتے وگرنہ یار ہے تا قتل ساتھ
لوہو پی جاوے ہمارا ہم کو اب جو پائے وہ
میرؔ کو واشد نہیں ہے مقصد اس کا اور ہے
عشق سے لڑکوں کے دل کو کب تلک بہلائے وہ