ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے
دل میں گرہ ہوس رہی پرواز باغ کی
موسم گلوں کا جب تئیں تھا ہم اسیر تھے
برنائی ہی میں تم سے شرارت نہیں ہوئی
لڑکے سے بھی تھے تم تو قیامت شریر تھے
آرائش بدن نہ ہوئی فقر میں بھی کم
جاگہ اتو کی جامے پہ نقش حصیر تھے
آنکھوں میں ہم کسو کی نہ آئے جہان میں
از بس کہ میرؔ عشق سے خشک و حقیر تھے