ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا
جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
گل پھول کو ہے ان نے پردہ سا بنا رکھا
جوں برگ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو
گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا
کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو
دل جس کسو کا پایا چٹ ان نے اڑا رکھا
تھی مسلک الفت کی مشہور خطرناکی
میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا
خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی
رخساروں کو گو تو نے برقع سے چھپا رکھا
چشمک ہی نہیں تازی شیوے یہ اسی کے ہیں
جھمکی سی دکھا دے کر عالم کو لگا رکھا
لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزہ رکھا
کشتے کو اس ابرو کے کیا میل ہو ہستی کی
میں طاق بلند اوپر جینے کو اٹھا رکھا
قطعی ہے دلیل اے میرؔ اس تیغ کی بے آبی
رحم ان نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا