ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ
داغ جلائے فلک نے بدن پر سرو چراغاں ہم کو کیا
کہاں کہاں اب مرہم رکھیں جسم ہوا ہے سراسر داغ
صحبت درگیر آگے اس کے پہر گھڑی ساعت نہ ہوئی
جب آئے ہیں گھر سے اس کے تب آئے ہیں اکثر داغ
غیر کو دیکھ کے اس مجلس میں غیرت عشق سے آگ لگی
اچھلے کودے سپند نمط ہم ہو گئے آخر جل کر داغ
جلتی چھاتی پہ سنگ زنی کی سختی ایام سے میرؔ
گرمی سے میری آتش دل کی سارے ہوئے وے پتھر داغ