جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں
دفتر بنے کہانی بنی مثنوی ہوئی
کیا شرح سوز عشق کروں میں زباں نہیں
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
ہنگامہ و فساد کی باعث ہے وہ کمر
پھر آپ خوب دیکھیے تو درمیاں نہیں
جی ہی نکل گیا جو گیا یار پاس سے
جسم ضعیف و زار میں اب میرے جاں نہیں
ہے عشق ہی سے چار طرف بحث و گفتگو
شور اس بلائے جاں کا جہاں میں کہاں نہیں
اس عہد کو نہ جانیے اگلا سا عہد میرؔ
وہ دور اب نہیں وہ زمیں آسماں نہیں