دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
میں تو سرو و شاخ گل کی قطع ہی کا دیوانہ تھا
یار نے قد قامت دکھلا کر سر پر میرے قیامت کی
قسمت میں جو کچھ کہ بدا ہو دیتے ہیں وہ ہی انساں کو
غم غصہ ہی ہم کو ملا ہے خوبی اپنی قسمت کی
خلوت یار ہے عالم عالم ایک نہیں ہے ہم کو بار
در پر جا کر پھر آتے ہیں خوب ہماری عزت کی
اک گردن سے سو حق باندھے کیا کیا کریے ہوں جو ادا
مدت اس پر ایک نفس جوں صبح ہماری فرصت کی
شیوہ اس کا قہر و غضب ہے ناز و خشم و ستم وے سب
کوئی نگاہ لطف اگر کی ان نے ہم سے مروت کی
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ناز و خشم کا رتبہ کیسا ہٹ کس اعلیٰ درجے میں
بات ہماری ایک نہ مانی برسوں ہم نے منت کی
دکھن پورب پچھم سے لوگ آ کر مجھ کو دیکھیں ہیں
حیف کہ پروا تم کو نہیں ہے مطلق میری صحبت کی
دوستی یاری الفت باہم عہد میں اس کے رسم نہیں
یہ جانے ہیں مہر و وفا اک بات ہے گویا مدت کی
آب حسرت آنکھوں میں اس کی نومیدانہ پھرتا تھا
میرؔ نے شاید خواہش دل کی آج کوئی پھر رخصت کی