کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی

کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی
یوں پھونک کر کے خاک مری سب اڑا گئی
کچھ تھی طپش جگر کی تو بارے مزاج داں
پر دل کی بے قراری مری جان کھا گئی
کس پاس جا کے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آ گئی
کون اس ہوا میں زخمی نہیں میری آہ کا
بجلی رہی تھی سو بھی تو سینہ دکھا گئی
سودا جو اس کے سر سے گیا زلف یار کا
تو تو بڑی ہی میرؔ کے سر سے بلا گئی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *