کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا

کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا
برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا
معلوم تیرے چہرۂ پرنور کا سا لطف
بالفرض آسماں پہ گیا پھول مہ ہوا
پوچھ اس سے درد ہجر کو جس کا بہ نازکی
جاگہ سے اپنے عضو کوئی بے جگہ ہوا
ہم پلہ اپنا کون ہے اس معرکے کے بیچ
کس کے ترازو یار کا تیر نگہ ہوا
ایسا فقیر ہونا بھلا کیا ضرور تھا
دونوں جہاں میں میرؔ عبث رو سیہ ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *