دریا کا پھیر پایئے تیرا نہ پایئے
سر مار مار بیٹھے تلف ہو جے کب تلک
ٹک اٹھ کے اب نصیبوں کو بھی آزمائیے
سو شکل سے ہم آئے گئے تیری بزم میں
طنزاً کہا نہ تو نے کبھو یوں کہ آیئے
آئے ہیں تنگ جان سے قید حیات میں
اس بند سے ہمارے تئیں اب چھڑائیے
کہنے لگا کہ ٹیڑھے بہت ہو رہے ہو تم
دو چار سیدھی سیدھی تمھیں بھی سنایئے
ہے عزم جزم ترک و تجرد کا گر بنے
کیا اس جہان سفلہ سے دل کو لگایئے
تاثیر ہے دعا کو فقیروں کی میرؔجی
ٹک آپ بھی ہمارے لیے ہاتھ اٹھایئے