گردش دنوں کی کم نہ ہوئی کچھ کڑے ہوئے

گردش دنوں کی کم نہ ہوئی کچھ کڑے ہوئے
روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے
نرمی سے کوئے یار میں جاوے تو جا نسیم
ایسا نہ ہو کہ اکھڑیں کہیں دل گڑے ہوئے
آہن دلوں نے مارا ہے جی غم میں ان کے ہم
پھرتے ہیں نعل سینوں پر اپنے جڑے ہوئے
آئے ہو بعد صلح کبھو ناز سے تو یاں
منھ پھیر ادھر سے بیٹھے ہو جیسے لڑے ہوئے
بیمار امیدوار سے بستر پہ اپنے ہم
دروازے ہی کی اور تکیں ہیں پڑے ہوئے
بار اس کی بزم میں نہیں ناچار در پہ ہم
رہتے ہیں جیسے صورت دیوار اڑے ہوئے
ہم زیر تیغ بیٹھے تھے پر وقت قتل میرؔ
وے ٹک ہمارے پاس نہ آ کر کھڑے ہوئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *